انسان کے لئے اس دنیا میں دشنام سے بچنا مشکل ہے
تقصیر سے بچنا ممکن ہے الزام سے بچنا مشکل ہے
طائر کے لئے دشوار نہیں صیاد و قفس سے دور رہے
لیکن جو شکل نشیمن ہے اس دام سے بچنا مشکل ہے
دامن کو بچا بھی لیں شاید صحرا کے نکیلے کانٹوں سے
گلشن کے مگر گل ہائے شرر اندام سے بچنا مشکل ہے
اس حادثہ گاہ ہستی میں ٹکرائیں گے دو دل کچھ بھی کرو
پریوں کے لیے وہ لاکھ اڑیں گلفام سے بچنا مشکل ہے
اوہام کی تاریکی تو مٹا سکتے ہیں جلا کر شمع خرد
لیکن خود عقل کے زائیدہ اوہام سے بچنا مشکل ہے
اے ارض سحر کے راہروو منزل پہ پہنچنے سے پہلے
ہر قافلہ جس نے لوٹ لیا اس شام سے بچنا مشکل ہے
کچھ قطرۂ مے اوپر اوپر پھر درد ہی درد اندر اندر
آغاز محبت خوب مگر انجام سے بچنا مشکل ہے
اک خوں اور گوشت کے انساں کا معبود تری جنت کی قسم
حوروں سے چرانا آنکھ آساں اصنام سے بچنا مشکل ہے
انسان کی ہے اولاد اگر وہ ملاؔ ہو یا اور کوئی
ہنگام جوانی فلسفۂ خیامؔ سے بچنا مشکل ہے
غزل
انسان کے لئے اس دنیا میں دشنام سے بچنا مشکل ہے
آنند نرائن ملا