انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو
الجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو
لگتا ہے کہ پنجرے میں ہوں دنیا میں نہیں ہوں
دو روز سے دیکھا کوئی اخبار نہیں تو
دنیا ہمیں نابود ہی کر ڈالے گی اک دن
ہم ہوں گے اگر اب بھی خبردار نہیں تو
کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوشبو
ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو
ہم برسر پیکار ستم گر سے ہمیشہ
رکھتے ہیں قلم ہاتھ میں تلوار نہیں تو
بھائی کو ہے بھائی پہ بھروسہ تو بھلا ہے
آنگن میں بھی اٹھ جائے گی دیوار نہیں تو
بے سود ہر اک قول ہر اک شعر ہے راغبؔ
گر اس کے موافق ترا کردار نہیں تو
غزل
انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو
افتخار راغب