ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے
چولھے جلیں کہ گھر ہی جلیں پر دھواں رہے
نیرو نے بنسری کی نئی تان چھیڑ دی
اب روم کا نصیب فقط داستاں رہے
پانی سمندروں کا نہ چھلنی سے ماپیے
ایسا نہ ہو کہ سارا کیا رائیگاں رہے
مجھ کو سپرد خاک کرو اس دعا کے ساتھ
آنگن میں پھول کھلتے رہیں اور مکاں رہے
کاٹی ہے عمر رات کی پہنائیوں کے ساتھ
ہم شہر بے چراغ میں اے بے کساں رہے
آذرؔ ہر ایک گام پہ کاٹا ہے سنگ جبر
ہاتھوں میں تیشہ سامنے کوہ گراں رہے
غزل
ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے
اعزاز احمد آذر