ان سرابوں سے گزرنے دے مجھے
انگلیاں ریت میں بھرنے دے مجھے
جس ندی پار نہ اترا کوئی
اس ندی پار اترنے دے مجھے
کوئی سیاح مجھے ڈھونڈھے گا
اک جزیرہ ہوں ابھرنے دے مجھے
یوں نہ بے زار ہو اتنا خود سے
تیرا چہرہ ہوں سنورنے دے مجھے
دیکھ بے منظریٔ منظر کو
کم سے کم رنگ تو بھرنے دے مجھے
رو بہ رو مجھ کو کبھی لا میرے
اپنے ہی آپ سے ڈرنے دے مجھے
شکر کیجے کہ شکایت کیجے
وہ نہ جینے دے نہ مرنے دے مجھے
راہ مت روک کہ مشکل ہے بہت
بہتا پانی ہوں گزرنے دے مجھے
ایک ایسا بھی شجر ہو جو امیرؔ
اپنے سائے میں ٹھہرنے دے مجھے
غزل
ان سرابوں سے گزرنے دے مجھے
امیر قزلباش