ان کو خلا میں کوئی نظر آنا چاہیے
آنکھوں کو ٹوٹے خواب کا ہرجانہ چاہیے
وہ کام رہ کے شہر میں کرنا پڑا ہمیں
مجنوں کو جس کے واسطے ویرانہ چاہیے
ہے ہجر تو کباب نہ کھانے سے کیا حصول
گر عشق ہے تو کیا ہمیں مر جانا چاہیے
اس زخم دل پہ آج بھی سرخی کو دیکھ کر
اترا رہے ہیں ہم ہمیں اترانا چاہیے
دانائیاں بھی خوب ہیں لیکن اگر ملے
دھوکہ حسین سا تو اسے کھانا چاہیے
تنہائیوں پہ اپنی نظر کر ذرا کبھی
اے بےوقوف دل تجھے گھبرانا چاہیے
اس شاعری میں کچھ نہیں نقاد کے لئے
دل دار چاہیے کوئی دیوانہ چاہیے

غزل
ان کو خلا میں کوئی نظر آنا چاہیے
امیر امام