ان کی نظروں میں نہ بن جائے تماشہ چہرہ
اس لیے ڈرتا ہوں دکھلانے سے اپنا چہرہ
جانے کیا بات ہوئی شہر نگار جاں میں
آج کیوں اجنبی لگتا ہے شناسا چہرہ
بحر غم بھی ہے کبھی عاشق خستہ کے لیے
ہے کبھی ساحل عشرت بھی تمہارا چہرہ
ہم وہاں ہیں جہاں قائم ہے حکومت دل کی
پھر بھی کیوں روز دکھاتا ہے کرشمہ چہرہ
چہرۂ حسن کو اب دیکھ کے یہ سوچتا ہوں
آئنہ ہے کوئی یا آئنہ خانہ چہرہ
کیا رہے دل کی کوئی بات معمہ بن کر
کرتا رہتا ہے یہاں دل کا فسانہ چہرہ
کون ہے جس کے لیے اتنا پریشان ہے دل
ڈھونڈھتا رہتا ہے اب کس کو وہ چہرہ چہرہ
کشتۂ گردش دوراں ہوئے اف ری تقدیر
ورنہ کل چاند سے بہتر تھا ہمارا چہرہ
وہ ترے پھول سے دن مجھ کو بہت یاد آئے
میں نے دیکھا جو ترا دھوپ میں جھلسا چہرہ
چشم مشتاق ز سر تا بہ قدم میں بھی ہوں
بن گیا ہے جو ترا حسن سراپا چہرہ
مہرباں کون مرے دل پہ ہے اتنا اے ظفرؔ
ہر گھڑی رہتا ہے آنکھوں میں یہ کس کا چہرہ

غزل
ان کی نظروں میں نہ بن جائے تماشہ چہرہ
ظفر انصاری ظفر