EN हिंदी
ان کی جب نکتہ وری یاد آئی | شیح شیری
inki jab nukta-wari yaad aai

غزل

ان کی جب نکتہ وری یاد آئی

قیوم نظر

;

ان کی جب نکتہ وری یاد آئی
اپنی ہی بے خبری یاد آئی

یاد آئی بھی تو یوں عہد وفا
آہ کی بے اثری یاد آئی

آج کیوں ان کو بہ آغوش رقیب
میری ہی ہم عصری یاد آئی

دل نے پھر وقت سے لڑنا چاہا
پھر وہی درد بھری یاد آئی

اپنا سینہ ہوا روشن تو انہیں
حسن کی کم نظری یاد آئی

جب بھی دھیان آیا کہیں منزل کا
راہ کی شب بسری یاد آئی

کس کو حاصل ہے دماغ نالہ
بے سبب بے ہنری یاد آئی

دیکھ کر بے دلیٔ شوق کا رنگ
اپنی آشفتہ سری یاد آئی

اس پہ کیا گزری جو اس عالم میں
پھول کو جامہ دری یاد آئی

باغ کا حال وہ دیکھا ہے نظرؔ
شاخ تھی جو بھی ہری یاد آئی