ان حسینوں کی محبت کا بھروسا کیا ہے
کوئی مر جائے بلا سے انہیں پروا کیا ہے
یاد آتا ہے شب وصل کسی کا کہنا
خیر ہے خیر سے اس وقت ارادا کیا ہے
وہ عیادت کو مری آئیں گے ایسے ہی تو ہیں
نامہ بر واقعی سچ کہتا ہے بکتا کیا ہے
دشمن مہر دغاباز ستم گر قاتل
جانتے بھی ہو زمانہ تمہیں کہتا کیا ہے
اٹھ گئے حضرت محمودؔ زمانے سے رشیدؔ
نہ ہو استاد تو پھر لطف غزل کا کیا ہے
غزل
ان حسینوں کی محبت کا بھروسا کیا ہے
رشید رامپوری