ان دونوں گھر کا خانہ خدا کون غیر ہے
شیخ حرم عبث تھے انکار دیر ہے
اے یار بے خبر تو مری لے نہ لے خبر
ورد زباں ترا ہی مجھے ذکر خیر ہے
غیبت میں کیا تعلق اسے یاد سے مری
کچھ کام اس کا اٹکا بھلا مجھ بغیر ہے
پروا ہے کب اسے مرے رفع ملال سے
گہہ شاغل شکار کبھی گشت سیر ہے
بے وجہ کیا ہیں ہم سے یہ بے روئیاں تری
کیا ہم میں اور تجھ میں کسی رو سے بیر ہے
انسان رکھے عشق کی نسبت سے امتیاز
یوں قید خواب و خور میں تو ہر وحش و طیر ہے
اپنی گلی میں دیکھ کے حسرتؔ کو بولا یار
چل جا پرے ہو دور اگر تیری خیر ہے
غزل
ان دونوں گھر کا خانہ خدا کون غیر ہے
حسرتؔ عظیم آبادی