EN हिंदी
امتحاں کے لیے جفا کب تک | شیح شیری
imtihan ke liye jafa kab tak

غزل

امتحاں کے لیے جفا کب تک

مومن خاں مومن

;

امتحاں کے لیے جفا کب تک
التفات ستم نما کب تک

غیر ہے بے وفا پہ تم تو کہو
ہے ارادہ نباہ کا کب تک

جرم معلوم ہے زلیخا کا
طعنۂ دست نارسا کب تک

مجھ پہ عاشق نہیں ہے کچھ ظالم
صبر آخر کرے وفا کب تک

دیکھیے خاک میں ملاتی ہے
نگہ چشم سرمہ سا کب تک

کہیں آنکھیں دکھا چکو مجھ کو
جانب غیر دیکھنا کب تک

نہ ملائیں گے وہ نہ آئیں گے
جوش لبیک و مرحبا کب تک

ہوش میں آ تو مجھ میں جان نہیں
غفلت جرأت آزما کب تک

لے شب وصل غیر بھی کاٹی
تو مجھے آزمائے گا کب تک

تم کو خو ہو گئی برائی کی
درگزر کیجیئے بھلا کب تک

مر چلے اب تو اس صنم سے ملیں
مومنؔ اندیشۂ خدا کب تک