امکان سے باہر کبھی آثار سے آگے
محشر ہے مرے دیدۂ خوں بار سے آگے
عرفان کی حد یا مرے پیکر کی شرارت
نکلا مرا سایہ مری دستار سے آگے
اک جنس زدہ نسل ہے تہذیب کے پیچھے
بازار ہے اک کوچہ و بازار سے آگے
سورج ہے شب و روز تعاقب میں وگرنہ
ہے اور بہت رات کے اسرار سے آگے
ہم لوگ کہ منزل کے بھلاوے کے گرفتار
آثار سے پیچھے کبھی آثار سے آگے

غزل
امکان سے باہر کبھی آثار سے آگے
خالد کرار