الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی
ہم نے تو بس ہوا کے تعلق سے بات کی
ہر صبح جب کہ صبح قیامت کی طرح آئے
ایسے میں کون ہوگا جو سوچے ثبات کی
تکلیف تو ہوئی مگر اے ناخن ملال
کھلنے لگی گرہ بھی کوئی اپنی ذات کی
زنجیر ہے جزیرہ ہے یا شاخ بے ثمر
اب کون سی لکیر سلامت ہے ہات کی
مرنے اگر نہ پائی تو زندہ بھی کب رہی
تنہا کٹی وہ عمر جو تھی تیرے ساتھ کی
پھر بھی نہ میرا قافلہ لٹنے سے بچ سکا
میں نے خبر تو رکھی تھی ایک ایک گھات کی
غزل
الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی
پروین شاکر