EN हिंदी
الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی | شیح شیری
ilzam tha diye pe na taqsir raat ki

غزل

الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی

پروین شاکر

;

الزام تھا دیے پہ نہ تقصیر رات کی
ہم نے تو بس ہوا کے تعلق سے بات کی

ہر صبح جب کہ صبح قیامت کی طرح آئے
ایسے میں کون ہوگا جو سوچے ثبات کی

تکلیف تو ہوئی مگر اے ناخن ملال
کھلنے لگی گرہ بھی کوئی اپنی ذات کی

زنجیر ہے جزیرہ ہے یا شاخ بے ثمر
اب کون سی لکیر سلامت ہے ہات کی

مرنے اگر نہ پائی تو زندہ بھی کب رہی
تنہا کٹی وہ عمر جو تھی تیرے ساتھ کی

پھر بھی نہ میرا قافلہ لٹنے سے بچ سکا
میں نے خبر تو رکھی تھی ایک ایک گھات کی