الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا
حصے میں مرے کون سا پتھر نہیں آیا
ہم جو بھی ہوئے ہیں بڑی محنت سے ہوئے ہیں
کام اپنے کبھی اپنا مقدر نہیں آیا
کچھ اور نہیں بس یہ تو مٹی کا اثر ہے
ظالم کو کبھی کہنا ہنر ور نہیں آیا
دل کا سبھی دروازہ کھلا رکھا ہے میں نے
پر اس کو نہ آنا تھا ستم گر نہیں آیا
منہ موڑ لیا تم نے تو یہ حال ہوا ہے
وہ گھر سے گیا ایسے کہ پھر گھر نہیں آیا
غزلیں تو بہت کہتے ہو لیکن میاں زاہدؔ
اب تک تمہیں بننا بھی سخنور نہیں آیا
غزل
الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا
زاہد الحق