التجائیں کرنے والے کو دعا سے کیا غرض
جس کو ہو تجھ سے غرض اس کو خدا سے کیا غرض
پی رہا ہے مسکرا کر جام صحت موت کا
تیرے بیمار محبت کو شفا سے کیا غرض
عشق کشتی اپنی خود کھیتا ہے اپنے زور پر
نا خدا سے واسطہ کیا اور خدا سے کیا غرض
میں ہوں اور اب آستان عشق کی ہیں عظمتیں
اب مرے سجدوں کو تیرے نقش پا سے کیا غرض
دل کو اب ذوق محبت کے مزے آنے لگے
تجھ سے اب تیری جفا سے یا وفا سے کیا غرض
او نگاہ ملتفت بے فائدہ ہے التفات
درد ہی دل میں نہیں ہے اب دوا سے کیا غرض
اب گھٹائیں میکدے پر چھائیں تو میں کیا کروں
بے دلی کو دعوت آب و ہوا سے کیا غرض
روح کو بالیدگی ہو جس میں اب وہ دل نہیں
ہم نشیں مجھ کو بہار جاں فزا سے کیا غرض
کس قدر خوش رہ کے مر جاتے ہیں مظلومان عشق
کوئی یہ سمجھے انہیں روز جزا سے کیا غرض
قہر کو بھی جس کے ہو اک درگزر سے واسطہ
اس کی رحمت کو مرے جرم و خطا سے کیا غرض
اب دل ناکام میں وہ نالہ و نغمہ کہاں
بسملؔ اک ساز شکستہ کو صدا سے کیا غرض
غزل
التجائیں کرنے والے کو دعا سے کیا غرض
بسمل سعیدی