التجا ہے عجز و عسرت کن فکانی اور ہے
گفتگوئے بے ثمر معجز بیانی اور ہے
قریۂ مومن پہ حملہ کر تو پہلے سوچ لے
یہ علاقہ مختلف یہ راجدھانی اور ہے
ہر عدالت لکھ چکی ہے فیصلہ تو کیا ہوا
فیصلہ باقی ابھی اک آسمانی اور ہے
کچھ نہ کہہ کر بھی صداقت باپ کی منوا گئے
اصغر بے شیر تیری بے زبانی اور ہے
ایک مصرع کہہ کے عابدؔ خود کو نہ شاعر سمجھ
شستہ غزلیں ہیں کجا اور لن ترانی اور ہے
غزل
التجا ہے عجز و عسرت کن فکانی اور ہے
عابد کاظمی