التفات عام ہے وجہ پریشانی مجھے
کس قدر مہنگی پڑی ہے ان کی ارزانی مجھے
بحر ہستی ہے مری نظروں میں اک دشت سراب
ریت کا ہوتا ہے دھوکہ دیکھ کر پانی مجھے
تیرے جلووں کا تو ہر اک ذرہ ہے آئینہ دار
مانع نظارہ ہے خود میری حیرانی مجھے
سعیٔ بے حاصل تھی دل کی کوشش اخفائے راز
کر گئی رسوا نگاہوں کی پریشانی مجھے
یا عدو بوالہوس کی ناز برداری کرو
یا بنا لو تختۂ مشق ستم رانی مجھے
کھل نہیں سکتی فقط اک آپ کے دل کی گرہ
ورنہ کیا کیا گتھیاں آتی ہیں سلجھانی مجھے
کس قدر نا پید ہیں اہل کمال اب اے وفاؔ
کوئی اپنا بھی نظر آتا نہیں ثانی مجھے
غزل
التفات عام ہے وجہ پریشانی مجھے
میلہ رام وفاؔ