علم و جاہ و زور و زر کچھ بھی نہ دیکھا جائے ہے
بزم ساقی میں دلوں کا ظرف جانچا جائے ہے
کوششیں ہیں دشت کھنچ آئے گلستاں کی طرف
اور گلستاں ہے کہ سوئے دشت کھنچتا جائے ہے
چشم تر اک رہ گئی ہے یادگار عہد عشق
گاہے گاہے یہ مری راتوں کو چمکا جائے ہے
ہو چکے ہیں خشک سب احساس کے سوتے مگر
قلب شاعر ہے جو تھوڑی سی نمی پا جائے ہے
بول میٹھے پیار کے ہونٹوں میں یوں پھنستے ہیں آج
طفل جیسے گھر کے انجانوں میں شرما جائے ہے
کچھ نہ کچھ ننھے سے ہر تارے کی لو دیتی ہے آج
گو بہ ظاہر اس پہ شب کی تیرگی چھا جائے ہے
اس طرف امن و بقا اور اس طرف جنگ و فنا
دیکھیے یہ کارواں کس سمت ملاؔ جائے ہے

غزل
علم و جاہ و زور و زر کچھ بھی نہ دیکھا جائے ہے
آنند نرائن ملا