EN हिंदी
الٰہی خیر ہو وہ آج کیوں کر تن کے بیٹھے ہیں | شیح شیری
ilahi KHair ho wo aaj kyun kar tan ke baiThe hain

غزل

الٰہی خیر ہو وہ آج کیوں کر تن کے بیٹھے ہیں

سردار گینڈا سنگھ مشرقی

;

الٰہی خیر ہو وہ آج کیوں کر تن کے بیٹھے ہیں
کسی کے قتل کرنے کو بھبھوکا بن کے بیٹھے ہیں

سبک سر ہے وہی جو دوسروں کے گھر پہ جاتا ہے
جو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں وہ لاکھوں من کے بیٹھے ہیں

غضب ہے قہر ہے شامت ہے آفت ہے قیامت ہے
بغل میں وہ عدو کے آج کیوں بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

کہیں کیا مدعا اپنا سنائیں راز دل کیوں کر
ہمارے سامنے کچھ آدمی دشمن کے بیٹھے ہیں

مزہ کنج لحد میں کیوں نہ لوں میں ساغر مل کا
کہ بادہ خوار پاس آ کر مرے مدفن کے بیٹھے ہیں

خدا کے واسطے ان کو نکل کر جلوہ دکھلا دو
کہ خواہش مند کوچہ میں ترے چتون کے بیٹھے ہیں

ہیں پیاسے ہم تو مدت کے پلا دے جام مے ساقی
وہ جب چاہیں پئیں جو منتظر ساون کے بیٹھے ہیں

طبیعت ہو تو ایسی ہو جو عادت ہو تو ایسی ہو
ابھی وہ تن کے بیٹھے تھے ابھی وہ من کے بیٹھے ہیں

اگر رغبت نہ ہو اس دہر میں موذی کو موذی سے
تو کیوں خار مغیلاں پاؤں میں رہزن کے بیٹھے ہیں

نہیں معلوم کس کو تاڑتے ہیں کس سے وعدہ ہے
بہ وقت شام پاس آ کر جو وہ چلمن کے بیٹھے ہیں

نہیں پروا اگر اے مشرقیؔ ان کو بلا جانے
اگر وہ ہیں کھنچے بیٹھے تو ہم بھی تن کے بیٹھے ہیں