الٰہی خیر ہو اب اپنے آشیانے کی
نگاہیں اس کی طرف پھر اٹھیں زمانے کی
ہوائے تند گزر جائے سرنگوں ہو کر
اک ایسا آشیاں کوشش کرو بنانے کی
خزاں کے آنے سے ہو جائیں غم زدہ جو پھول
انہیں قسم ہے بہاروں میں مسکرانے کی
کسی کی برق نظر سے نہ بجلیوں سے جلے
کچھ اس طرح کی ہو تعمیر آشیانے کی
وہ پوچھتے ہیں کہ دن کس طرح گزرتے ہیں
یہ کوئی بات ہے تاباںؔ انہیں بتانے کی
غزل
الٰہی خیر ہو اب اپنے آشیانے کی
انور تاباں