اک یہی روشنی روشنی امکان میں ہے
تو ابھی تک دل ویران میں ہے
شور برپا ہے تری یادوں کا
رونق ہجر بیابان میں ہے
پیار اور زندگی سے لگتا ہے
کوئی زندہ دلی بے جان میں ہے
آج بھی تیرے بدن کی خوشبو
تیرے بھیجے ہوئے گلدان میں ہے
زندگی بھی ہے مری آنکھوں میں
موت بھی دیدۂ حیران میں ہے
دل ابھی نکلا نہیں سینے سے
ایک قیدی ابھی زندان میں ہے
غزل
اک یہی روشنی روشنی امکان میں ہے
فرحت عباس شاہ