EN हिंदी
اک عمر مہ و سال کی ٹھوکر میں رہا ہوں | شیح شیری
ek umr mah-o-sal ki Thokar mein raha hun

غزل

اک عمر مہ و سال کی ٹھوکر میں رہا ہوں

اصغر گورکھپوری

;

اک عمر مہ و سال کی ٹھوکر میں رہا ہوں
میں سنگ سہی پھر بھی سر راہ وفا ہوں

آپ اپنے ہی ناکردہ گناہوں کی سزا ہوں
آواز ہوں لیکن ترے ہونٹوں سے جدا ہوں

کیا کم ہے کہ رسوائے جہاں ہوں تری خاطر
میں داغ ہوں لیکن ترے ماتھے پہ سجا ہوں

پانی میں نظر آتی ہے اک چاند سی صورت
پیاسا ہوں مگر دیر سے دریا پہ کھڑا ہوں

اک تو ہی نہیں اور بھی خوبان جہاں ہیں
تجھ کو نہیں پایا ہے تو اوروں سے ملا ہوں

سب دیس مرے دیس ہیں سب لوگ مرے لوگ
کیا جانیے میں کون سی مٹی کا بنا ہوں