اک عمر گزاری ہے تب راز یہ سمجھا ہے
جو کچھ ہے محبت ہے دنیا ہے یہ عقبیٰ ہے
اک آپ کا دامن ہے معمور مرادوں سے
اک میرا گریباں ہے جو خون میں لتھڑا ہے
اخلاص سے عاری ہے اب پرسش غم اے دل
یہ رسم ہی دنیا سے اٹھ جائے تو اچھا ہے
اس دور کشاکش میں ہم ہوں کہ ضیاؔ تم ہو
بکھرے ہوئے موتی ہیں ٹوٹا ہوا رشتہ ہے
غزل
اک عمر گزاری ہے تب راز یہ سمجھا ہے
بختیار ضیا