EN हिंदी
اک عمر گزاری ہے تب راز یہ سمجھا ہے | شیح شیری
ek umr guzari hai tab raaz ye samjha hai

غزل

اک عمر گزاری ہے تب راز یہ سمجھا ہے

بختیار ضیا

;

اک عمر گزاری ہے تب راز یہ سمجھا ہے
جو کچھ ہے محبت ہے دنیا ہے یہ عقبیٰ ہے

اک آپ کا دامن ہے معمور مرادوں سے
اک میرا گریباں ہے جو خون میں لتھڑا ہے

اخلاص سے عاری ہے اب پرسش غم اے دل
یہ رسم ہی دنیا سے اٹھ جائے تو اچھا ہے

اس دور کشاکش میں ہم ہوں کہ ضیاؔ تم ہو
بکھرے ہوئے موتی ہیں ٹوٹا ہوا رشتہ ہے