اک تو ہی نہیں ناصیہ فرسا مرے آگے
ہر شخص ہے محروم تمنا مرے آگے
اے زیست تجھے یاد ہیں انداز جنوں خیز
جب ذرۂ صحرا بھی تھا صحرا مرے آگے
وہ دور کہ دریا بھی تھا اک قطرۂ بے آب
اب قطرۂ بے آب ہے دریا مرے آگے
اے داور محشر وہ گھڑی یاد ہے تجھ کو
جب لایا گیا میرا سراپا مرے آگے
روتا ہے مرا جذبۂ دل دیکھ کے مجنوں
بے پردہ چلی آتی ہے لیلیٰ مرے آگے
لکھا ہے ترا نام سمندر پہ ہوا نے
اے دوست نہ کر اس کا یوں چرچا مرے آگے
یوسف تو ہے کنعان میں پابند سلاسل
شیشے میں اترتی ہے زلیخا میرے آگے
اے آہ اگر چھوڑ دوں میں ضبط کا دامن
اڑنے لگے خاک رخ صحرا مرے آگے
بلبل کا لہو کوچۂ قاتل میں بہا یوں
جیسے ہو کوئی موجۂ دریا مرے آگے
افسوس ہوا بند صنم خانۂ آذر
ناصح نہ سنا آ کے یہ مژدہ مرے آگے
وہ فتنۂ محشر ہے مگر مہر بہ لب ہے
جیسے ہو کوئی موم کی گڑیا مرے آگے
زاہد کے لئے کھول دے میخانے کا در آج
بسمل سا تڑپتا ہے یہ پیاسا مرے آگے
تاثیر نہ ہوتی جو مری چشم فسوں میں
شیشے سا نہ ساقی کبھی گرتا مرے آگے
خوش بخت تھا وہ دور مظفرؔ کہ چمن میں
ٹوٹا نہ کبھی شاخ سے غنچہ مرے آگے

غزل
اک تو ہی نہیں ناصیہ فرسا مرے آگے
مظفر احمد مظفر