اک طرفہ تماشہ سر بازار بنے گا
جو شخص بھی آئینۂ کردار بنے گا
یہ بات بھی طے ہو گئی دہشت زدگاں میں
جو سنگ بدست آئے گا سردار بنے گا
رنگوں سے نہ رکھیے کسی صورت کی توقع
وہ خون کا قطرہ ہے جو شہکار بنے گا
میں اس کے پنپنے کی دعا مانگ رہا ہوں
بچے کے یہ تیور ہیں کہ فن کار بنے گا
پھر لخت جگر کوئلہ لے آیا کہیں سے
اب دیکھیے کیا کیا سر دیوار بنے گا
یکسوئی سے جب اس کی طرف دیکھو گے اشعرؔ
کچھ دیر میں مہتاب رخ یار بنے گا
غزل
اک طرفہ تماشہ سر بازار بنے گا
علی مطہر اشعر