اک تو یہ زندگی ہی سراسر فریب ہے
اور اس پہ آگہی بھی برابر فریب ہے
رہنے دو ان کو عشق و جنوں کے سراب میں
تلخی ہے اتنی سچ میں کہ بہتر فریب ہے
تعبیر تیرے خواب کی معلوم ہے مجھے
تجھ کشتۂ گماں کا مقدر فریب ہے
اک اور آسماں بھی ہے اس آسمان پر
گویا یہاں فریب کے اوپر فریب ہے
ہے واقعہ کچھ اور ہی کاشفؔ پس حجاب
جو آنکھ دیکھتی ہے وہ منظر فریب ہے
غزل
اک تو یہ زندگی ہی سراسر فریب ہے
کاشف رفیق