EN हिंदी
اک تشنہ لب نے بڑھ کے جو ساغر اٹھا لیا | شیح شیری
ek tishna-lab ne baDh ke jo saghar uTha liya

غزل

اک تشنہ لب نے بڑھ کے جو ساغر اٹھا لیا

فنا نظامی کانپوری

;

اک تشنہ لب نے بڑھ کے جو ساغر اٹھا لیا
ہر بو الہوس نے مے کدہ سر پر اٹھا لیا

موجوں کے اتحاد کا عالم نہ پوچھئے
قطرہ اٹھا اور اٹھ کے سمندر اٹھا لیا

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان
یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

میں ایسا بد نصیب کہ جس نے ازل کے روز
پھینکا ہوا کسی کا مقدر اٹھا لیا