اک تری یاد سے یادوں کے خزانے نکلے
ذکر تیرا بھی بھی محبت کے بہانے نکلے
ہم نے سمجھا تھا کہ دل ہے ترا مسکن لیکن
جانے والوں کے کہیں اور ٹھکانے نکلے
پھر مرے کان میں گونجی ہیں دعائیں تیری
تیری آغوش میں غم اپنے چھپانے نکلے
ایک خوشبو کی طرح گاہے بگاہے آنا
کتنے سندر ترے کچھ روپ سہانے نکلے
دل میں کچھ ٹوٹنے لگتا ہے ترے ذکر کے ساتھ
چند آنسو تری الفت کے بہانے نکلے
میں تو اک روپ ہوں تیرا یہی کافی ہے صباؔ
اب اسی رنگ سے اس دل کو سجانے نکلے

غزل
اک تری یاد سے یادوں کے خزانے نکلے
صبیحہ صبا