اک ترنم سا مرے پاؤں کی زنجیر میں ہے
پھر کوئی فصل بہاراں مری تقدیر میں ہے
جھلملاتے ہیں ستارے کہ دیے جلتے ہیں
کچھ اجالا سا تری زلف گرہ گیر میں ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے سادہ و معصوم بہت
کچھ مرا پیار بھی شامل تری تصویر میں ہے
اور بڑھتی ہے اسی شخص کی چاہت ناصح
یہ کرامات عجب آپ کی تقریر میں ہے
اپنی کھوئی ہوئی چھینی ہوئی جنت کا سراغ
حلقۂ دار میں ہے جنبش شمشیر میں ہے
میں جو چاہوں تو پگھل جائیں جدائی کے پہاڑ
یہ بھی تاثیر مرے نالۂ شب گیر میں ہے
ماہ و خورشید زمیں پر نہیں اترے اب تک
میرا ہر خواب ابھی پردۂ تعبیر میں ہے
غزل
اک ترنم سا مرے پاؤں کی زنجیر میں ہے
نور بجنوری