اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھو جاتی ہے
شب کو آ کر مرے آغوش میں سو جاتی ہے
یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے
صبح کا ذکر نہیں صبح تو ہو جاتی ہے
رشتۂ جاں کو سنبھالے ہوں کہ اکثر تری یاد
اس میں دو چار گہر آ کے پرو جاتی ہے
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغ منزل
آنکھ تو صرف تماشوں ہی میں کھو جاتی ہے
کب مجھے دعوی عصمت ہے مگر یاد اس کی
جب بھی آ جاتی ہے دامن مرا دھو جاتی ہے
ناخدا چارۂ طوفاں کرے کوئی ورنہ
اب کوئی موج سفینے کو ڈبو جاتی ہے
کر چکا جشن بہاراں سے میں توبہ حقیؔ
فصل گل آ کے مری جان کو رو جاتی ہے
غزل
اک تمنا کہ سحر سے کہیں کھو جاتی ہے
شان الحق حقی