EN हिंदी
اک تمنا ہے خموشی کے کٹہرے کتنے | شیح شیری
ek tamanna hai KHamoshi ke kaTahre kitne

غزل

اک تمنا ہے خموشی کے کٹہرے کتنے

سید شکیل دسنوی

;

اک تمنا ہے خموشی کے کٹہرے کتنے
دل کی دہلیز پہ احساس کے پہرے کتنے

کتنے گہرے ہیں کہ اک عمر لگی بھرنے میں
ویسے لگتے ہیں سبھی زخم اکہرے کتنے

سب نے دیکھے مرے ہونٹوں پہ تبسم کے گلاب
کس نے دیکھا ہے مرے زخم ہیں گہرے کتنے

کتنے ارماں کا لہو ان میں بسا ہے سیدؔ
یوں تو لگتے ہیں سبھی خواب سنہرے کتنے