EN हिंदी
اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا | شیح شیری
ek talatum sa hai har samt tamannaon ka

غزل

اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا

محسن احسان

;

اک تلاطم سا ہے ہر سمت تمناؤں کا
دل پہ ہوتا ہے گماں شہر ہے دریاؤں کا

تو بھی اک بار مری روح کے آئینے میں
جھانک کر دیکھ تقدس ہے کلیساؤں کا

ہاں مگر قتل گہ شوق میں کچھ اور بھی تھے
ہاتھ کیوں مجھ پہ اٹھا میرے مسیحاؤں کا

اب کے گھنگھور گھٹا کھل کے جو برسے بھی تو کیا
دھوپ نے رنگ ہی کجلا دیا صحراؤں کا

اب سر دشت خود آرائی کھڑا ہوں تنہا
میں کہ دولہا تھا کبھی انجمن آراؤں کا

محسنؔ احسان کی اس سادہ دلی کے صدقے
دھوپ میں ڈھونڈھتا پھرتا ہے مزا چھاؤں کا