اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں
پھول سے لے کے تا بہ سنگ ہوں میں
باد صرصر کی طرح گرم عناں
سینۂ ریگ کی امنگ ہوں میں
ذرہ ذرہ نے کر دیا حیراں
اور حیرانیوں پہ دنگ ہوں میں
فتح بھی اک شکست ہی ہوگی
آرزوؤں سے محو جنگ ہوں میں
کیسے تجھ کو بہا کے لے جاؤں
موج ہمسایۂ نہنگ ہوں میں
شہر و صحرا کی کچھ نہیں تخصیص
وسعت دشت جاں سے تنگ ہوں میں
کس نے دیکھا فشار موجۂ جاں
آج تک آب زیر سنگ ہوں میں
غزل
اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں
سحر انصاری