اک شمع کا سایہ تھا کہ محراب میں ڈوبا
اک میں کہ ترے ہجر کے گرداب میں ڈوبا
میری شب تاریک کا چہرہ ہوا روشن
سورج سا کوئی شام کو مہتاب میں ڈوبا
ہے دیدۂ بے خواب مرا کتنا فریبی
جب دیکھیے لگتا ہے کسی خواب میں ڈوبا
دل تھا کہ کوئی کھیل میں پھینکا ہوا پتھر
موجوں سے جو لڑتا ہوا تالاب میں ڈوبا
کھلتا ہے فقط اتنا وہ از راہ مروت
ملتا ہے مگر مجلسی آداب میں ڈوبا
پاتال کی گہرائی سے ابھرا مرا آنسو
چپکے سے پھر اک کوزۂ بے آب میں ڈوبا
تھا جس کا فلک بوس فصیلوں میں تحفظ
وہ گھر بھی مرا وقت کے سیلاب میں ڈوبا
غزل
اک شمع کا سایہ تھا کہ محراب میں ڈوبا
مصطفی شہاب