اک سرد جنگ کا ہے اثر میرے خون میں
احساس ہو رہا ہے دسمبر کا جون میں
کس نے ہلائی آج یے زنجیر آگہی
ایک شور سا بپا ہے میرے اندرون میں
یہ اور بات خود کو بکھرنے نہیں دیا
یادیں خلل تو ڈال رہیں تھیں سکون میں
میرا تمہارے ہجر نے یہ حال کر دیا
شب کو تمہاری شکل نظر آئی مون میں
تحفہ مرے خلوص نے ایسا دیا سبینؔ
دھڑکن میں جوش ہے نہ حرارت ہے خون میں
غزل
اک سرد جنگ کا ہے اثر میرے خون میں
غوثیہ خان سبین