EN हिंदी
اک سایہ دار پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ کے | شیح شیری
ek saya-dar peD ko jaD se ukhaD ke

غزل

اک سایہ دار پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ کے

مراتب اختر

;

اک سایہ دار پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ کے
کیا مل گیا تجھے مری دنیا اجاڑ کے

اب اور انتظار کر اے کھوکھلے بدن
میں آ رہا ہوں مد مقابل پچھاڑ کے

تنہا مجھے بسیط خلا میں اڑا دیا
ہم زاد نے بیاض تسلسل سے پھاڑ کے

کیوں چاند کی طرف ہیں رواں کم نگاہ لوگ
دل کی ردا سے عظمت پستی کو جھاڑ کے

اس خود نما کی رفعت بنیاد دیکھیے
پاؤں زمین بوس ہیں اونچے پہاڑ کے

شہرت کی آگ اصل میں اک نقش دود تھی
بجھ کر بکھر گئی ترا حلیہ بگاڑ کے