اک سایہ دار پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ کے
کیا مل گیا تجھے مری دنیا اجاڑ کے
اب اور انتظار کر اے کھوکھلے بدن
میں آ رہا ہوں مد مقابل پچھاڑ کے
تنہا مجھے بسیط خلا میں اڑا دیا
ہم زاد نے بیاض تسلسل سے پھاڑ کے
کیوں چاند کی طرف ہیں رواں کم نگاہ لوگ
دل کی ردا سے عظمت پستی کو جھاڑ کے
اس خود نما کی رفعت بنیاد دیکھیے
پاؤں زمین بوس ہیں اونچے پہاڑ کے
شہرت کی آگ اصل میں اک نقش دود تھی
بجھ کر بکھر گئی ترا حلیہ بگاڑ کے

غزل
اک سایہ دار پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ کے
مراتب اختر