اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
وقت پڑنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی
ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا
سرد رت میں گرمئ آتش بہت مہنگی پڑی
موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب
پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی
خار قسمت کیا نکالے ہاتھ زخمی کر لیے
ناخن تدبیر کی کاوش بہت مہنگی پڑی
اس عمل نے تو کہیں کا بھی نہ رکھا دوستو
خود کو چاہے جانے کی خواہش بہت مہنگی پڑی
ذکر قحط رنگ سے پہلے ہی تالے پڑ گئے
ہر لب تصویر کو جنبش بہت مہنگی پڑی
تند خو موجوں نے ساجدؔ چاند ساحل کھا لیے
بحر شب میں امن کی کوشش بہت مہنگی پڑی
غزل
اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی
اقبال ساجد