اک روشنی کا زہر تھا جو آنکھ بھر گیا
ہر دائرہ وہ سوچ کا مفلوج کر گیا
تھی عاقبت کی خامشی تنہائیوں کی چیخ
دنیا یہ کہہ رہی تھی مرا وقت مر گیا
جو شہر درد میں تھا گھنی چھاؤں کا شجر
کچھ دھوپ تھی کڑی کہ خلا میں اتر گیا
کیا لطف تشنگی تھا مجھے کچھ خبر نہیں
کتنے سمندروں سے میں پیاسا گزر گیا
کر کے جو برہنہ مجھے غیروں کی بھیڑ میں
وہ میرا درد زندگی جانے کدھر گیا
یہ اجنبی سے لوگ یہ انجان سا جہاں
اپنے وجود سے ہی میں شاید گزر گیا
غزل
اک روشنی کا زہر تھا جو آنکھ بھر گیا
سوہن راہی