اک قیامت وقت سے پہلے بپا ہونے کو ہے
اے خدائے مہرباں اب اور کیا ہونے کو ہے
موسم گل میں خزاں سایہ فگن ہے کس لیے
درپئے آزار کیا باد صبا ہونے کو ہے
جسم و جاں میں قربتوں کی انتہا ہو جائے گر
جان لیں پھر دوریوں کی ابتدا ہونے کو ہے
چھوڑ دی میں نے متاع خواب دنیا کے لیے
حشر اک تقسیم پر اس کی بپا ہونے کو ہے
دل دھڑکتا ہے یوں ہی اندیشۂ فردا ہے کیوں
ایسا لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے
جل چکا میرا نشیمن دیکھنا یہ ہے کہ اب
آگ پھیلے گی کہاں پر اور کیا ہونے کو ہے
چاند تاروں کا سفر راہیؔ کریں گے ایک دن
کائنات بے کراں اب زیر پا ہونے کو ہے
غزل
اک قیامت وقت سے پہلے بپا ہونے کو ہے
سید نواب حیدر نقوی راہی