EN हिंदी
اک قطرے کو دریا سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں | شیح شیری
ek qatre ko dariya samjha main bhi kaisa pagal hun

غزل

اک قطرے کو دریا سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں

دیومنی پانڈے

;

اک قطرے کو دریا سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں
ہر سپنے کو سچا سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں

بیچ دلوں کے وہ دوری تھی طے کرنا آسان نہ تھا
آنکھوں کو اک رستہ سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں

بڑا کیا تھا پال پوس کر پھر بھی اک دن بچھڑ گئے
خوابوں کو اک بچہ سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں

کانٹے سی خود میری شہرت ہر پل دل میں چبھتی ہے
فن کو کھیل تماشا سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں

تن پر تو اجلے کپڑے تھے لیکن من کے کالے تھے
ان لوگوں کو اچھا سمجھا میں بھی کیسا پاگل ہوں