اک قطرۂ معنی سے افکار کا دریا ہو
اے ذرۂ آگاہی اب پھیل کے صحرا ہو
رفتہ رہے وابستہ ہر حال دریچے سے
فردا کے جھروکوں میں ماضی کا اجالا ہو
اے بچھڑی ہوئی ندی کس دشت میں بہتی ہے
پھر جانب دریا آ اور شامل دریا ہو
آفاق بلندی سے آواز یہ آتی ہے
اک عصر میں شامل ہو اک پل سے علاحدہ ہو
لمحے کی حقیقت کیا صدیوں کے تناظر میں
لیکن جسے تو چاہے وہ رشک زمانہ ہو
اس دھوپ کے راہی کو انجام سے کچھ پہلے
اک ایسی مسافت دے جس پر ترا سایہ ہو
ایسا نہ ہو وہ مانگے تصدیق کا اک لمحہ
اور ہم نے وہی لمحہ محفوظ نہ رکھا ہو
غزل
اک قطرۂ معنی سے افکار کا دریا ہو
خاور اعجاز