اک پرندہ سر دیوار بھی باقی نہ رہا
اب تو پرواز کا دیدار بھی باقی نہ رہا
حبس ایسا تھا کہ سائے میں سلگ اٹھے گلاب
لو چلی ایسی کہ گلزار بھی باقی نہ رہا
لوگ دم سادھ گئے خوف نے گھیرا ایسے
کوئی اندیشۂ بے کار بھی باقی نہ رہا
حادثہ کیا ہوا بکھرے ہوئے سناٹے میں
لفظ سے رشتۂ اظہار بھی باقی نہ رہا
ایک وحشت ہی متاع غم جاناں نکلی
لطف دل دارئی غم خوار بھی باقی نہ رہا
جاں سسکتی رہی خواہش کے بیابانوں میں
شوق ہر لحظہ کا آزار بھی باقی نہ رہا
دل بھی یادوں کی کڑی دھوپ میں کمھلا سا گیا
اور کوئی سایۂ دیوار بھی باقی نہ رہا
ایسی ویرانی ہے خود موت بھی کترا کے چلی
کوئی مرنے کا سزاوار بھی باقی نہ رہا
غزل
اک پرندہ سر دیوار بھی باقی نہ رہا
ماہ طلعت زاہدی