EN हिंदी
اک پریشانی الگ تھی اور پشیمانی الگ | شیح شیری
ek pareshani alag thi aur pashemani alag

غزل

اک پریشانی الگ تھی اور پشیمانی الگ

تفضیل احمد

;

اک پریشانی الگ تھی اور پشیمانی الگ
عمر بھر کرتے رہے ہم دودھ اور پانی الگ

ریت ہی دونوں جگہ تھی زیر مہر و زیر آب
مصرع اولیٰ سے کب تھا مصرع ثانی الگ

دشت میں پہلے ہی روشن تھی ببولوں پر بہار
دے رہے ہیں شہر میں کانٹوں کو سب پانی الگ

کچھ کمک چاہی تو زنبیل ہوا خالی ملی
گھاٹیوں میں کھو گیا نقش سلیمانی الگ

ریت سمجھوتے کی خاطر ناچتی ہے دھوپ میں
بادلوں کی ضد جدا ہے میری من مانی الگ

مدعی ہیں برف بالو رات کانٹے تپ ہوا
جسم پر ہے فوجداری جاں پہ دیوانی الگ

وہ فلک سنگیت میں مٹی کی دھن تو کیا ہوا
سارےگاما سے کہیں ہوتا ہے پادھانی الگ

فن میں طاقت ور بہاؤ چشم دو آبا کا ہے
زیبؔ غوری سے کہاں تفضیلؔ ہیں بانیؔ الگ