اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
در پردہ کہیں کی آرزو ہے
ہے بھی تو انہیں کا دل کو ارماں
ہے بھی تو انہیں کی آرزو ہے
ہوتا نہیں ہاں سے قول پورا
اب مجھ کو نہیں کہ آرزو ہے
کھو آئے ہیں کوئے یار میں دل
اس پر بھی وہیں کی آرزو ہے
ایمان کا اب خدا نگہباں
اک دشمن دیں کی آرزو ہے
نکلے بھی تو تیری جستجو میں
یہ جان حزیں کی آرزو ہے
اندھیرا مچا ہوا ہے دل میں
کس ماہ جبیں کی آرزو ہے
کیوں حشر کا قول کر رہے ہو
مضطرؔ کو یہیں کی آرزو ہے
غزل
اک پردہ نشیں کی آرزو ہے
مضطر خیرآبادی