اک پل کی دوڑ دھوپ میں ایسا تھکا بدن
میں خود تو جاگتا ہوں مگر سو گیا بدن
بچہ بھی دیکھ لے تو ہمک کر لپک پڑے
ایسی ہی ایک چیز ہے وہ دودھیا بدن
جی چاہتا ہے ہاتھ لگا کر بھی دیکھ لیں
اس کا بدن قبا ہے کہ اس کی قبا بدن
جب سے چلا ہے تنگ قمیصوں کا یہ رواج
نا آشنا بدن بھی لگے آشنا بدن
گنگا کے پانیوں سا پوتر کہیں جسے
آنکھوں کے تٹ پہ تیرتا ہے جو گیا بدن
بستر پہ تیرے میرے سوا اور کون ہے
محسوس ہو رہا ہے کوئی تیسرا بدن
دھرتی نے موسموں کا اثر کر لیا قبول
رت پھر گئی تو ہو گیا اس کا ہرا بدن
اس کو کہاں کہاں سے رفو کیجیے نظرؔ
بہتر یہی ہے اوڑھیے اب دوسرا بدن
غزل
اک پل کی دوڑ دھوپ میں ایسا تھکا بدن
پریم کمار نظر