EN हिंदी
اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا | شیح شیری
ek pal kahin ruke the safar yaad aa gaya

غزل

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا

فاروق بخشی

;

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا
پھولوں کو ہنستا دیکھ کے گھر یاد آ گیا

تتلی کے ساتھ آئی تری یاد بھی ہمیں
رکھا ہوا کتاب میں پر یاد آ گیا

بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں ہم دونوں مدتوں
کیا جانے آج کیوں وہ شجر یاد آ گیا

سرحد سے کوئی آیا ہے پھر خون مانگنے
اک ماں کو اپنا لخت جگر یاد آ گیا

پھینکا تھا میں نے طنز کا پتھر کسی کی سمت
غالبؔ کی طرح اپنا ہی سر یاد آ گیا