EN हिंदी
اک نگاہ بے رخی سے غرق ہوتے ذائقے | شیح شیری
ek nigah-e-be-ruKHi se gharq hote zaiqe

غزل

اک نگاہ بے رخی سے غرق ہوتے ذائقے

ثروت مختار

;

اک نگاہ بے رخی سے غرق ہوتے ذائقے
لو چکھو تحلیل غرب و شرق ہوتے ذائقے

تب سمجھ میں آ بھی جاتے ان کی دوری کے سبب
جب زمین و آسماں کے فرق ہوتے ذائقے

تو سمجھ سکتا نہیں ہے عشق کی معراج کو
تو نے چکھے ہی نہیں ہیں برق ہوتے ذائقے

عمر گزری پر نہ سمجھا ذائقوں کے فرق کو
زرق لگتے ذائقے تھے برق ہوتے ذائقے