اک نیا کرب مرے دل میں جنم لیتا ہے
قافلہ درد کا کچھ دیر جو دم لیتا ہے
رنگ پاتا ہے مرے خون جگر سے گل شعر
سبزۂ فکر مری آنکھ سے نم لیتا ہے
آبرو حق و صداقت کی بڑھا دیتا ہے
جب بھی سقراط کوئی ساغر سم لیتا ہے
رات کے سائے میں شبنم کے گہر ڈھلتے ہیں
رات کی کوکھ سے خورشید جنم لیتا ہے
ذہن بے نام دھندلکوں میں بھٹک جاتا ہے
آج فن کار جو ہاتھوں میں قلم لیتا ہے
جس کو ہو دولت احساس میسر تائبؔ
چین وہ کار گۂ زیست میں کم لیتا ہے

غزل
اک نیا کرب مرے دل میں جنم لیتا ہے
حفیظ تائب