اک نقش بگڑنے سے اک حد کے گزرنے سے
کیا کیا نہیں مر جاتا اک خواب کے مرنے سے
اب عرصۂ ہستی میں صد رنگ مناظر ہیں
اس آئنۂ دل میں اک عکس اترنے سے
اک عمر کی کاوش سے ہم نے تو یہی جانا
سب کام سنورتے ہیں اس دل کے سنورنے سے
راضی ہیں بصد رغبت اے جان تمنا ہم
یہ بات جو بن جائے سو بار بھی مرنے سے
وہ موج ہی ایسی تھی جنگل جو اڑا لے جائے
کس طرح بچاتے پھر ہم خود کو بکھرنے سے
غزل
اک نقش بگڑنے سے اک حد کے گزرنے سے
مبین مرزا