اک نئے شہر خوش آثار کی بیماری ہے
دشت میں بھی در و دیوار کی بیماری ہے
ایک ہی موت بھلا کسے کرے اس کا علاج
زندگانی ہے کہ سو بار کی بیماری ہے
بس اسی وجہ سے قائم ہے مری صحت عشق
یہ جو مجھ کو تیرے دیدار کی بیماری ہے
لوگ اقرار کرانے پہ تلے ہیں کہ مجھے
اپنے ہی آپ سے انکار کی بیماری ہے
یہ جو زخموں کی طرح لفظ مہک اٹھتے ہیں
صرف اک صورت اظہار کی بیماری ہے
گھر میں رکھتا ہوں اگر شور مچاتی ہے بہت
میری تنہائی کو بازار کی بیماری ہے
غزل
اک نئے شہر خوش آثار کی بیماری ہے
سالم سلیم