EN हिंदी
اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی | شیح شیری
ek nadi mein saikDon dariya ki tughyani mili

غزل

اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی

ظفر امام

;

اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی
ڈوبنے والے کو مر جانے کی آسانی ملی

حاشیہ بردار سے پوچھا سمندر نے میاں
آج تک اک موج بھی تم کو نہ دیوانی ملی

سرپھری پاگل ہوا کو روکنا دشوار تھا
ایک ہی دن کے لیے تھی اس کو سلطانی ملی

تشنہ لب تالاب نے بادل کو پھر دھوکا دیا
پھر وہی صحرا وہی صحرا کی ویرانی ملی

ہر سفر سے کشتیوں کا لوٹنا ممکن نہیں
کیا پتہ کب لہر کوئی دشمن جانی ملی

آگے پیچھے سب کو مقتل سے گزرنا ہے ظفرؔ
کیوں سمجھتے ہیں کہ ہم کو ہی پریشانی ملی